سورۂ عصر کی اولین دو آیتوں کامفہوم یوں ہے:
زمانے کی قسم ہے۔انسان گھاٹے میں ہے/ انسان خائب و خاسر ہے۔ البتہ وہ لوگ خائب و خاسر نہیں ہیں جنھوں نے ایمان و یقین کی دولت پا لی ہے اور نیک عمل کیے ہیں۔
اسے مفہوم مخالف سے دیکھیں۔ یعنی مفہوم عکسی دیکھیں تو یوں ہے۔
زمانے کی قسم ہے! جنھوں نے نیک اعمال نہیں کیے اور یقین و ایمان کے ذائقے نہیں چکھے وہی انسان خسارے میں رہیں گے۔
اس کا ایک اور مفہوم بھی تو ہو سکتا ہے۔
قسم ہے زمانے کی انسان گھاٹے میں ہے۔ لیکن وہ لوگ گھاٹے میں نہیں ہیں جنھوں نے ایمان و یقین حاصل کر لیا ہے اور اس کے نتیجے میں نیک اور صالح اعمال کیے ہیں۔
یعنی دوسرے الفاظ میں ! خیر کے کام نہ کرنے والے مومنین کا ایمان مشکوک ہے یا پھر وہ باوجود ایمان کے گھاٹے کا سودا کر رہے ہیں۔
یعنی اوبندۂ خدا ! نیکی کے کام بھی کیا کرو۔صرف ایمان کافی نہیں ہے۔
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
کیوں کہ وہی ایک گھاٹے کا سودا نہیں کرتا۔
Leave a Reply